اردو — دوسرا دن
نوجوان آوازیں، ادبی حکمت و روحانی شب
ممبئی، ۷ اکتوبر ۲۰۲۵:
مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکیڈمی کی پچاس سالہ خدمات کے جشن “بہار اردو” کے دوسرے دن نے ڈوم ایس وی پی اسٹیڈیم ورلی کو اردو کی فصاحت، فکر اور جذبات سے روشناس کروایا۔
بہار اردو کے دوسرے دن کا آغاز ایک اوپن مائیک مشاعرہ سے ہوا جس میں نوجوان شعراء نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ ان میں قائم شاہ، احد سعید، پائل پانڈے، زین لکھیم پوری، ریاض عاصی، شوکت علی، عدنان شیخ، میانک ورما، عمران عطائی اور مقصود آفاق نے اپنے خوبصورت کلام پیش کیے۔
بعد ازاں “مہاراشٹر میں اردو ادب” کے عنوان سے ایک مذاکرے کا انعقاد ہوا جس میں ماڈریٹر کے فرائض ڈاکٹر تبسم خان نے انجام دیے۔ اس مذاکرے میں ڈاکٹر شیخ احرار احمد (تھانے)، ڈاکٹر قاضی نوید صدیقی (اورنگ آباد)، ڈاکٹر عبداللہ امتیاز احمد (ممبئی) اور پروفیسر شاہد نوخیز نے اپنے مقالے پیش کیے۔
اس کے بعد “جدید ٹیکنالوجی اور اردو” کے عنوان سے ایک علمی محفل کا انعقاد ہوا جسے محمد عرفان رضا نے ماڈریٹ کیا۔ اس نشست میں ڈاکٹر محمد تابش خان (بھیونڈی)، ڈاکٹر لِیاقت علی (دہلی)، ڈاکٹر پرویز احمد، اور ڈاکٹر محمود مرزا نے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اردو کو میسر مواقع پر امید افزا گفتگو کی۔
شام کے اوقات میں تمثیلی مشاعرے کے عنوان سے ایک خوبصورت محفل منعقد ہوئی۔ اس نشست میں زاہد علی سید، منظُور الاسلام ساجد اے حمید، رضیہ بیگ، نعمان خان، نزہت پروین عقیل کاغذی، طلحہ ہاشمی، محسن حسنین شیخ اور خان شاداب محمد نے مرزا غالب، طاہر فراز، انجم رہبر اور عبید اعظم عظمی اور پروین شاکر جیسے مشہور شعراء کی تمثیل کی اور محفل کو چار چاند لگا دیے۔
تمثیلی مشاعرے کے بعد “داستان گوئی” کی محفل میں فوزیہ داستان گو نے سماں باندھ دیا تو اس کے فوری بعد ایک دل نشیں محفل میں صوفی گلوکارہ جہلم سنگھ نے اپنے نغمات پیش کیے جس پر بالخصوص نوجوان سامعین نے دل کھول کر داد دی۔
شام کے ہی ایک اہم سیشن میں اردو زبان و ادب کی خدمت کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا اور ان کے درمیان مختلف زمروں میں ایوارڈ تقسیم کیے گئے۔ اس میں نوجوان قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اردو اخبارات و رسائل کے بہترین لے آؤٹ ڈیزائنرس کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ اسکول اور کالج و یونیورسٹی سطح پر اساتذہ کی تدریسی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مختلف زمروں میں لکھی گئی بہترین کتابوں کے لیے انعامات تقسیم کیے گئے۔ آخر میں صوفی برادرس کی جانب سے محفل قوالی کے ساتھ “بہار اردو” کے اس خوبصورت دن کا اختتام ہوا۔
بہارِ اردو کا دوسرا دن محض ایک پروگرام نہ تھا بلکہ یہ ایک زندہ جشنِ وراثت، فکر و فن کا مظہر تھا۔ جس میں یہ یاد دہانی کروائی گئی کہ اردو صرف تاریخ کی کتابوں کا حصہ نہیں، بلکہ ہر اس آواز کی میراث ہے جو اس زبان کو بولنے، گانے، اور خواب دیکھنے کی جرات رکھتی ہے۔ بہار اردو کی تقاریب میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جس میں قابل ذکر تعداد نوجوان طبقہ کی تھی جو کہ اردو زبان و ادب کی میراث کو زندہ رکھنے کیلئے ایک امید افزاء صورت حال پیش کرتی ہے۔
اردو — دوسرا دن
نوجوان آوازیں، ادبی حکمت و روحانی شب